ویسے تو پاکستان میں جمہوریت کا ’’جنازہ‘‘ 1949 ءمیں ہی نکال دیا گیا تھا جب اس وقت کی حکومت نے نام نہاداحتساب کے نام پر پروڈا قانون نافذ کیا اور جس کا اطلاق1947ءسے کیا گیا۔ اس کے تحت کسی بھی سیاستدان کو کم از کم 10 سال کے لئے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ اور اس بدنام زمانہ قانون کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ وہ ریاستی مائنڈ سیٹ تھا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں نافذ ہے۔ اب ایسے میں نہ سیاست پروان چڑھ سکی نہ جمہوریت قدم جما سکی نہ رہنما پیدا ہو سکے۔ بس جو ہم سب کے سامنے ہیں وہ ٹیم کے 12ویں کھلاڑی کی مانند ہیں۔ ’’احتساب‘‘ کا نام ہر دور میں استعمال ہوا مگر کرپشن، اپنی انتہا کو پہنچ گئی کیونکہ مقصد کرپٹ عناصر کا خاتمہ نہ تھا بلکہ صرف احتساب کی تلوار دکھا کر انہیں استعمال کرنا تھا ویسے بھی یہ عمل سب کے لئے یا سب پر لاگو نہیں ہوتا۔ یوں پاکستان کرپشن میں ڈوبتا چلا گیا۔ قدرتی آفات سیلاب ہوں یا زلزلے زندگی کا حصہ ہیں مگر ہر سال یہ سڑکیں، پل کیسے بہہ جاتے ہیں کوئی ہے یہ سوال کرنے والا۔
جب ملک میں احتساب کا مقصد ہی صرف اور صرف سیاستدانوں کا قلع قمع کرنا ہو اورصرف من پسند حکمران چاہئے ہو تو وہی ہوتا ہے جو سالہا سال سے ہورہا ہے ۔ ’’پروڈا‘‘ کے بعد ایوب خان صاحب ایک اور قانون ایبڈولے آئے۔ اب جس شخص کا حق حکمرانی ہی خلاف آئین ہو اسے نظریہ ضرورت کے تحت اس ملک کی اعلیٰ عدالت یہ حق دیدے تو جمہوریت پروان کیسے چڑھے گی اور پھر ایسا ہی ہوا اور اس نئے قانون کے تحت ہزاروں سیاستدانوں کو چھ چھ سال کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا یا انہوں نے خود ہی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یقین کریں اپنی تاریخ پڑھتا ہوں تو سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ، یعنی ابھی آپ نے ملک حاصل کیا وہ بھی جمہوری جدوجہد سے پھر سیاست اور صحافت پر پہلی تلوار چلا دی گئی نہ سیاست کرنے کی آزادی نہ آزادی صحافت تو آخر آزادی کا مقصد صرف اور صرف پابندیوں میں رکھنا تھا اور یہ سب ان کے ہاتھوں ہوا جو خود احتساب کے قابل تھے مگر جہاں جسٹس منیر جیسے چیف جسٹس رہے ہوں وہاں وہی ہوتا ہے جو ہوا۔
پاکستان میں لوگوں نے ہمیشہ ووٹ کو عزت دی مگر ووٹر کے مینڈیٹ کو عزت نہ مل سکی 1954ءمیں ووٹرز نےمسلم لیگ کا مشرقی پاکستان سے صفایا کیا بیلٹ کے ذریعے تو ہم نے بنگالیوں کو ہی نشانہ عبرت بنا دیا۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین نے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کیا اور صوبائی اسمبلی کی برطرفی کو چیلنج کیا اور سندھ کی عدالت نے گورنر جنرل غلام محمد کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کی تو مرکز نے فیڈرل کورٹ کا استعمال کیا اور نظریہ ضرورت لاگو ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد صرف بڑے بڑے سیاستدانوں کا ہی صفایا نہیں کیا گیا بلکہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بھی نااہل اور سزائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا سیاست کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ایسے میں اگر آج بیشتر سیاستدان دو نمبر نظر آتے ہیں تو نہ قصور ان کا ہے نہ جمہوریت کا بس پروجیکٹ فیکٹری کا این او سی لے آئیں اور خوش رہیں خوب کھائیں ۔
جس ملک میں حسین شہید سہروردی نااہل قرار دے دیے جائیں ایبڈو جیسے کالے قانون کے تحت، وہاں آپ ایک بہتر مستقبل کا خواب کیسے دیکھ سکتے تھے۔ کچھ اصطلاحوں کو ہماری اشرافیہ نے خوب استعمال کیا مثلاً کرپشن، بدعنوانی، غداری، نظریہ پاکستان کے خلاف، قومی مفاد کے خلاف اور ایسے دیگر الزامات لگا کر نااہل قرار دے دو یا سزا دے دو۔ بس جو ہاں میں ہاں ملائے اسے نواز دو۔
کبھی میں اپنے پڑوسی ملک پر نظر ڈالتا ہوں تو وہاں آج بہت ہی خرابیاں ہیں انتہا پسندی شاید ہم سے زیادہ ہے خاص طور پر نریندر مودی اور بی جے پی جیسی جماعتوں کی مقبولیت کو سامنے رکھیں تو مگر کیا وجہ ہے کہ جہاں تقسیم کے بعد کبھی مارشل لا نہیں لگا بس 70 کی دہائی میں ایک ایمرجنسی لگی کبھی غیر سیاسی مداخلت نہ ہوئی، الیکشن کمیشن ایسا کہ آج تک اس پر جانبداری کا الزام نہ لگا۔ جاگیرداری نظام کا شروع میں ہی خاتمہ کر دیا گیا مگر ہم نے تو اکثریت کو ہی الگ کر دیا۔
پھر ایک صاحب آئے انہوں نے 11سال طاقت کے بل پر حکومت کر کے سیاست کو ہی کاروبار بنا دیا اور سماج میں نفرتوں کے وہ بیج بوئے کہ ہم آج تک اس سے نہیں نکل پائے۔ جس دور میں سیاست کو کاروبار اورکرپشن کو سیاست کی پہچان بنا دیا جائے نظریاتی سیاست کا توڑ اس انداز میں لایا جائے کہ منتخب وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا دو اور سیاست کو گھر کی لونڈی بنا کر پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگوا کر الیکشن ملتوی کروا دو، نعرہ بھی ان سیاستدانوں سے لگوایا گیا جو بھٹو مخالف تھے کیونکہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں بدتر مثالیں قائم کیں اور نادر موقع ضائع کیے۔احتساب کے نام کا استعمال میاں نواز شریف نے بھی سیاسی مخالفین کے خلاف کیا اور احتساب بیورو کے ذریعہ وہی کھیل کھیلا کہ اپنے مخالف سیاستدانوں اور صحافیوں کو نشانہ بنائو۔ پتا نہیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ پھر ایسا ہی ہوا جو گڑھا انہوں نے دوسروں کے لئے کھودا اس کا شکار وہ خود بھی ہوئے اور نااہل قرار پائے۔ پھر جنرل پرویز مشرف آئے اور انہوں نے احتساب کا ایک نیا ادارہ قائم کیا۔ بات بلا امتیاز احتساب سے شروع ہوئی اور امتیاز پر آ کر ختم ہوئی ۔
پھر عمران خان آئے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر ادارے بنانے کے بجائے اسی ڈگر پر چل پڑے اور احتساب کے نام پر مخالفین سے انتقام اور اب شہباز شریف آئے ہیں عمران نے ان کو بند کیا انہوں نے عمران کو اور دونوں نے نام احتساب کا ہی استعمال کیا۔ شاید اگر 77 سالوں میں احتسابی عمل میں کچھ تھوڑی شفافیت نظر آئی تو عبوری وزیراعظم معین قریشی کے دور میں اور اگر تھوڑی بہت جمہوریت نظر آتی ہے تو محمد خان جونیجو کے دور میں جس کا پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران پہلا جملہ ہی یہ تھا ’’مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔
جب آپ باپ کو پھانسی چڑھا دیں گے، باپ کو عمر قید دے دیں گے، جب والدہ سرعام خود کش حملے میں شہید کر دی جائے گی، جب باپ جیل میں ہو گا اور فون تک پر بات نہ ہو پائے گی… تو حضور خاندانی سیاست ہی آگے آئے گی یہ ملک کا ہی نہیں جنوبی ایشیا کا المیہ ہے۔ البتہ اصولی طور پر خاندان کے فرد کا سیاست میں آنا عیب نہیں لیکن جمہوری ملکوں میں آپ کو ایک جمہوری پروسس سے گزرنا ہوتا ہے۔ جب سیاست کو ہی اس ملک میں پروان نہیں چڑھنے دیا گیا ہزاروں کو نااہل کر دیا گیا تو سیاستدان ایک کے راستے سے آئے گا ۔ اب احتساب کا نعرہ گالی سا بن گیا۔ کرپشن میں ڈوب چکا ہے پاکستان۔