مستونگ کی رہائشی خاتون نے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرکے سزا دی ، مجھے، میرئے خاندان اور واقعے کے عینی شاہدین کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ،یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ میرا 16 سالہ بیٹا طالب علم احسان شاہ عید سے چار روز قبل اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے عید کی خریداری کے بعد کوئٹہ سے مستونگ آرہا تھا کہ لکپاس کے مقام پر سیکورٹی اہلکاروں نے کسی انتباہ اور رکنے کا اشارہ کیے بغیر مبینہ طور پر موٹر سائیکل پر سوار میرے بیٹے اور اس کے دوست پر مبینہ طور پر فائرنگ کرکے بیٹے کو شہید اور دوست کو زخمی کردیا ۔ اس حوالے سے ہم نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کرکے ایف آئی آر درج کرائی لیکن واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی نہیں کی جارہی ، عدالت کے حکم پر ایف آئی آر تو درج ہوگئی مگر اس کے ساتھ ہی دباو کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ مجھے اور میری بیٹی کو بار بار دھمکایا جارہا ہے واقعے کا عینی شاہد جو میرے بیٹے کا دوست اور خود اسی فائرنگ میں زخمی ہو پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ میرے بیٹے کے خلاف بیان دے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک انصاف نہیں ملتا روزانہ کی بنیاد پر پریس کلب کے سامنے احتجاج کروں گی اور 16 اگست کو ریلی نکالیں گے جس میں وکلاء ، طلباء ، صحافیوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا یہ کسی طور حادثہ نہیں یہ سانحہ صرف میرے خاندان کا غم نہیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے زندگی سب سے بنیادی انسانی حق ہے لیکن یہ حق بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے اور میرئے خاندان اور واقعے کے عینی شاہدین کو مکمل تحفظ فراہم اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
