56

یونیورسٹی اور ہاسٹلز کی بندش، انتخابات کا التوا قابل مذمت ہے، سیف اللہ خان

پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی آرگنائزر سیف اللہ خان نے جامعہ بلوچستان و ہاسٹلز بند اور امتحانات موخر کرنے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ فیصلہ فوری واپس لے کر امتحانات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے ، جامعہ میں پشتو ، براہوئی اور بلوچی ڈیپارٹمنٹ ختم کرنے کا فیصلہ ناقابل قبول ہے ، زرعی کالج کی عمارت کو کسی صورت رینٹ آوٹ نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ، اس موقع پر تنظیم کے مرکزی ، زونل ، ضلع کوئٹہ اور یونیورسٹی یونٹ کے عہدیداران اسفند یار ، محمود خان ، نور خان اور وارث افغان سمیت دیگر بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ 2 جولائی کو ددوو طلباء کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے بعد پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) ، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذمہ داران کی موجودگی میں میڑھ مرکہ کے ذریعے مسئلے کو حل کیا گیا لیکن پشتون بلوچ روایات کو پیروں تلے روندتے ہوئے بعض عناصر نے پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور 5 طلباء کو شدید زخمی کیا جن کو سول اسپتال کے ٹراما سنٹر منتقل کیا گیا ۔ انہوں نے واقعے کی ذمہ داری یونورسٹی انتظامیہ پر عائد کرتے ہوئے کہا واقعے کو جواز بناکر ہاسٹل اور یونیورسٹی کو بند کرکے امتحانات ملتوی کرنا قابل مذمت ہے ،انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر یونورسٹی اور ہاسٹل کو کھول کر امتحانات شیڈول کے مطابق لئے جائیں ، یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں بحال کی جائیں تاکہ طلباء کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو ۔ ایک جانب یونیورسٹی میں طلبا کے لئے اسکالر شپس ختم کی جارہی ہیں دوسری جانب گزشتہ پانچ سال میں فیسوں میں 300 فیصد اضافہ کیا گیا اور اب جامعہ میں پشتو ، براہوی اور بلوچی ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرکے انہیں ایک ڈیپارٹمنٹ میں ضم کیا جارہا ہے جو مادری زبانوں اور قوموں کے ساتھ ظلم ہے ، پوری مہذب دنیا میں مادری زبانوں کا احترام کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ لینگوئجز کے شعبوں میں طلبا کی تعداد کم ہے جبکہ یونیورسٹی کے پشتو ڈیپارٹمنٹ میں 35 ایم فل اور 10 پی ایچ ڈی کے اسکالر انرول ہیں اور یونیورسٹیوں کا کام ہی ریسرچ ہوتا ہے ، لہذا اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور فوری طور پر جامعہ میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ میں قائم یوسف عزیز مگسی اور خان شہید ریسرچ سیٹروں کو فعال کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں زرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا لیکن اب تک کالج کو یونیورسٹی کا درجہ تو نہیں دیا گیا لیکن وہاں نئی تعمیر شدہ عمارت کو رینٹ آوٹ کیا جارہا ہے جو تعلیم دشمنی کے مترادف ہے ، حکومت فوری طور پر فیصلہ واپس لے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں