33

غزہ انسانی المیے کی انتہا پر ہے، امداد کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے، پاکستانی مستقل مندوب

سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں انسانی صورتحال پر بریفنگ کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ غزہ انسانی المیے کی انتہا پر ہے، امداد کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر رسل کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے نہایت متاثر کن بریفنگز پیش کیں۔ ہم آپ کے کام کو سراہتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔

اس صورتحال کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ناکافی ہیں یہ منظر ناقابلِ یقین ہے ایسی ہولناکی جو آج کے دور میں ناقابلِ تصور تھی۔ ہم آپ کی اپیلوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں بالخصوص بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون کی غیر متزلزل پاسداری اور غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کی۔

غزہ مکمل تباہی کے دہانے پر ہے ایک انسانی پیدا کردہ(man-made) المیہ، جہاں صرف بمباری سے نہیں بلکہ زندگی کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کے منظم انہدام سے بھی موت واقع ہو رہی ہے۔ اب تک 58,000 سے زائد افراد جاں بحق، 138,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، اور مکمل آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔

ہسپتال بمشکل کام کر رہے ہیں کیونکہ رسد کی زنجیروں کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور امداد جو لاکھوں لوگوں کے لیے زندگی کی آخری امید ہے خود ایک خطرناک مشن بن چکی ہے۔

صرف گزشتہ ہفتے، 12 جولائی کو، درجنوں شہری اس وقت شہید ہوئے جب اسرائیلی افواج نے غزہ شہر میں امدادی سامان کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے لوگوں پر فائرنگ کر دی۔

یہ مرد، خواتین اور بچے جھلستی دھوپ میں کھانے کے انتظار میں کھڑے تھے لیکن انہیں موت ملی۔ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات کی ایک لڑی کا حصہ ہے، جو فوری تبدیلی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

جولائی کی ایک اور گرم صبح، سات ماہ کی سلم ایک بم زدہ کلینک میں اپنی ماں کی کانپتی بانہوں میں بے حس و حرکت پڑی تھی اس کی پتلی جلد کے نیچے ابھلی ہوئی پسلیاں خشک شاخوں کی مانند نظر آ رہی تھیں۔

اس کی دھنستی آنکھیں، رونے کی بھی سکت سے محروم، بمشکل کھلی تھیں، جب کہ اقوام متحدہ کی UNRWA ٹیمیں اس کی جان بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

کئی ہفتوں سے اس کا خاندان ملبے میں تبدیل گلیوں میں فارمولہ دودھ تلاش کرتا رہا — لیکن ناکامی رہی۔ امدادی مراکز خالی تھے؛ اقوام متحدہ کے مراکز بند، خطرے میں یا ناقابلِ رسائی تھے۔

ڈاکٹروں نے اسے سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن سلم کی سانسیں مدھم ہوتی گئیں، اور اس کی آہیں خاموشی میں ڈھل گئیں۔

رات ہوتے ہوتے، سلم اس دنیا سے رخصت ہو گئی وہ 67 بچوں میں سے ایک تھی جو گزشتہ ماہ بھوک کی وجہ سے جاں بحق ہوئے، جب کہ ہزاروں امدادی ٹرک غزہ کی سرحدوں پر بیوروکریسی اور چیک پوائنٹس میں پھنسے رہے۔

سلم کی موت کوئی انفرادی سانحہ نہیں تھی۔ یہ ایک ایسے نظام کا متوقع نتیجہ تھی، جس نے بھوک کو جنگی ہتھیار بنا دیا — ایک ایسا ظلم کہ تجربہ کار طبی عملہ بھی اب ایسی غذائی قلت دیکھ رہا ہے جو انہوں نے صرف کتابوں میں پڑھی تھی۔

پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ میں پانچ فوری نوعیت کے نکات پر زور دینا چاہتا ہوں۔

پہلا: موجودہ امدادی نظام ان لوگوں کو ناکام کر رہا ہے جن کی خدمت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق، مئی کے آخر سے اب تک امداد سے جڑے 798 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 615 امدادی مراکز یا ان کے قریب مارے گئے۔

پہلے اقوام متحدہ کے تحت قائم کردہ 400 سے زائد امدادی مراکز کا نیٹ ورک ختم ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ GHF کے تحت محدود اور سخت پابندیوں والا نظام موجود ہے، جس میں صرف چند مخصوص مقامات پر امداد دی جاتی ہے۔

یہ نظام مجبور شہریوں کو فعال جنگی علاقوں میں دھکیل دیتا ہے تاکہ وہ بنیادی ضروریات حاصل کر سکیں۔ جو امداد غزہ پہنچی ہے وہ نہایت قلیل ہے، اس کا نفاذ ناقص ہے، اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ بدترین بات یہ ہے کہ یہ نظام خود موت کا جال بن چکا ہے۔

دوسرا: زندگی بچانے والی امداد، خاص طور پر بچوں کے لیے دودھ کی فراہمی کی بندش ناقابلِ دفاع سطح تک پہنچ چکی ہے۔

نومولود بچے بھوک سے فوری موت کے خطرے میں ہیں۔ ایسی محرومی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہو سکتی۔ ضروری اشیاء کی بلارکاوٹ ترسیل کو فوری ممکن بنایا جائے۔

تیسرا: غزہ میں ادویات، پناہ گاہوں اور ایندھن کی شدید قلت بڑھ رہی ہے۔ 12 جولائی 2025 کو اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا کہ ایندھن کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، جس سے ہسپتالوں، پانی و صفائی کے نظام، ٹیلی کمیونیکیشن، بیکریوں، ایمبولینسوں اور امدادی کاموں کا بند ہونا یقینی ہے۔

21 لاکھ کی آبادی کے لیے یہ ایک تباہ کن نکتہ ہے۔ ایندھن، طبی امداد اور پناہ گاہوں کے سامان کو فوراً غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔

چوتھا: موجودہ امدادی نظام ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے غیر جانبدار امدادی نیٹ ورک کی جگہ، ایک عسکری اور منتخب نظام دینا انسانی قانون کی بنیادی اقدار غیرجانبداری اور غیر جانب داری کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اس کے اثرات صرف غزہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ مستقبل کے تنازعات میں بھی شہریوں کی حفاظت خطرے میں ڈال دیں گے۔

پانچواں، اور سب سے اہم: یہ سانحہ ناگزیر نہیں تھا، یہ اسرائیل کی قابض طاقت کے سوچے سمجھے اقدامات، پالیسیوں اور سرگرمیوں کا نتیجہ ہے اور اسے بدلا جا سکتا ہے، بدلا جانا چاہیے۔

عاصم افتخار نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر عمل کرنا ہوگا۔ اہداف واضح ہیں: فوری، غیر مشروط، اور مستقل جنگ بندی؛ غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ اور مکمل، بلاروک ٹوک، غیرجانبدار انسانی رسائی کا بحال ہونا خاص طور پر اقوام متحدہ کے نظام کے تحت، بشمول UNRWA؛ تمام یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی؛ قابض طاقت کی تمام غیر قانونی پالیسیوں، بشمول فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، کو واضح طور پر مسترد کرنا؛ اور سب سے بنیادی طور پر، اس بحران کی اصل وجہ یعنی طویل قبضے اور فلسطینیوں کے حقوق سے انکار کا خاتمہ۔

مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کا تقاضا ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر قائم، القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے والی، آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ اس حوالے سے ہم سعودی عرب اور فرانس کی زیرِ صدارت ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس کی طرف دیکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ فوری نتائج دے گی۔

دنیا تماشائی نہیں بن سکتی جب غزہ کو بھوکا مارا جا رہا ہو اور برباد کیا جا رہا ہو۔ آئیے روزانہ کی ہلاکتوں کے سامنے بے حس نہ ہوں یہ صرف ایک اور سرخی، ایک اور خبر، ایک اور عدد نہیں۔ ہر ہندسے کے پیچھے ایک انسان ہے: ایک کہانی، ایک خواب جو بجھ گیا، ایک خاندان جو بکھر گیا۔

پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ تاریخ ہمیں ہر صورت پرکھے گی آئیں اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں، بلکہ انسانیت اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں