اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹوں کے مطابق غزہ میں خوراک کی سنگین کمی اور انسانی تباہی کا خطرہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ تقریباً پوری آبادی براہِ راست خراب شدہ خوراکی صورتحال (IPC Phase 3 یا اس سے بدتر) کا شکار ہے، جس میں فقر و قحط کی شدت واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔
مارچ 2025 سے تجارتی و انسانی امداد مکمل طور پر بند ہونے کا آغاز ہوا، جس نے خوراکی نظام کی تباہی کو غیر مستحکم کیا۔ شہری اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
زرعی زمینوں کا تقریباً 75% حصہ اور آب پاشی کے نظام تقریباً ختم ہو چکے ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد میں مویشی بھی تلف ہو چکے ہیں۔
خوراک کے بنیادی اشیاء کی قیمتیں 1,400 فیصد سے لیکر 3,000 فیصد تک بڑھ چکی ہیں، فیملیز خوراک خریدنے کی سکت کھو چکی ہیں۔
غزہ میں بچوں اور ماؤں کی غذائی کیفیت انتہائی نازک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ لاکھوں شہری، بالخصوص بچے، روزانہ بھوک کی شدت برداشت کر رہے ہیں۔
غزہ ہیلتھ منسٹری اور اقوام متحدہ نے کم از کم 100 غذائی قلت سے ہونے والی اموات کی تصدیق کی ہے، اور برسوں سے متاثرہ بچوں میں بڑی تعداد بچوں کی شراکت شامل ہے۔
خوراکی قلت اور انسانی ادویات کی شدید کمی کی وجہ سے ہر روز متعدد بچے اور معصوم زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر بے ہنگم انسانی امداد محفوظ راستوں سے نہ فراہم کی گئی اور جہنم کے ماحول کو ختم نہ کیا گیا تو غزہ میں فاقہ کشی ایک نسل کش حالت میں تبدیل ہو جائے گی۔