یہ نومبر 1995ء تھا ۔ شہباز شریف کافی دن لندن میں گزار کر واپس لاہور آئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فاروق لغاری صدر اورمحترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں ۔ وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ خان بابر نے ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر رحمان ملک کو شریف خاندان کی بیرون ملک جائیدادیں ڈھونڈنے کی اسائنمنٹ دے رکھی تھی ۔ شہباز شریف کو گرفتاری کے بعد کوٹ لکھپت جیل لاہور میں رکھنے کی بجائے اڈیالہ جیل راولپنڈی لایا گیا ۔ یہاں اُن کی ملاقاتوں کو محدود کر دیا گیا ۔ صرف قریبی رشتہ داروں کو ملاقات کی اجازت تھی ۔ گوجر خان سے مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے چودھری ریاض کی اڈیالہ جیل میں کافی جان پہچان تھی ۔ اُن کے ذریعہ جیل سے مجھے شہباز شریف صاحب کے پیغامات ملتے رہتے تھے ۔ ایک دن پیغام ملا کہ شہباز شریف ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ پوچھا ملاقات کیسے ہو گی ؟ شہباز شریف کے ایک قابل اعتماد ملازم نے مجھے میاں شاہد شفیع کا شناختی کارڈ دیا اور کہا کہ شاہد صاحب شہباز شریف کے کزن میں آپ اُن کے شناختی کارڈ پر ملاقات کر سکتے ہیں ۔ شاہد صاحب کو میں زمانہ طالب علمی سے جانتا تھا ۔ وہ میرے ساتھ ماڈل ٹاؤن کرکٹ کلب میں کھیلا کرتے تھے ۔ شکل صورت میں بھی کچھ مشابہت تھی ۔ اُس زمانے میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز نہیں تھے اور مجھے عام لوگ شکل سے زیادہ نہیں پہچانتے تھے لہٰذا میں شاہد شفیع بن کر اڈیالہ جیل پہنچ گیا ۔ شہباز شریف صاحب سے ملاقات بھی ہو گئی ۔ انہوں نے اپنے خلاف قائم مقدمات کا کچھ پس منظر بتایا لیکن یہ ملاقات چُھپ نہ سکی ۔صدر اوروزیر اعظم دونوں کو پتہ چل گیا ۔ وہ چاہتے تو میرے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی بھی کر سکتے تھے لیکن بچت ہو گئی ۔ اسکے بعد میاں شاہد شفیع جب بھی ملتے تو ازراہ تفنن پوچھا کرتے کہ جناب کو میرا شناختی کارڈ تو نہیں چاہئے ؟ گزشتہ ہفتے اُن کا انتقال ہو گیا ۔ جب اُن کے انتقال کی خبر ملی تو مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب میں اُن کا شناختی کارڈ استعمال کر کے شہباز شریف کو ملنے اڈیالہ جیل گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ میاں شاہد شفیع کی مغفرت فرمائے ۔ وقت کتنی جلدی گزر جاتا ہے اور بدل بھی جاتا ہے ۔ آج عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں اور شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان ہیں ۔ میں اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا آج میں کسی عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے جیل میں ملاقات کر سکتا ہوں ؟ میں نے اپنے آپ کو نفی میں جواب دیا ۔ پچیس تیس سال پہلے بھی پاکستان میں جمہوریت اتنی مضبوط نہیں تھی لیکن اس جمہوریت کا کچھ نہ کچھ بھرم تو قائم تھا ۔ سیاستدان ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمات بھی قائم کراتے تھے ، خفیہ اداروں کے ہاتھوں استعمال بھی ہوتے تھے اور ایک دوسرے کو عدالتوں سے سزائیں بھی دلواتے تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ رواداری قائم تھی ۔ اب تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کو بھی نااہل قرار دیدیا ہے ۔ 31 جولائی 2025 ء کو اس کالم میں آپکو اطلاع دی تھی کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کو یقین ہے کہ انہیں کسی نہ کسی عدالت سے سزا دلوا کرالیکشن کمیشن سے نااہل قرار دلوانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس کالم کے شائع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اندر عمر ایوب خان کو سزا بھی مل گئی اور وہ نااہل بھی ہو گئے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ 9 مئی 2023 ء کے واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں دیکر قانون کی بالادستی قائم کی جا رہی ہے ۔ کیا مراد راس اور فرخ حبیب پر 9 مئی کو مقدمات قائم نہیں ہوئے تھے ؟ دونوں نے تحریک انصاف چھوڑ دی اور دونوں کو سزا نہیں ملی ۔ جب عدالتوں کی سزاؤں اور الیکشن کمیشن کی نااہلیوں سے قانون کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے قانون کو ایک مذاق بنا دیا جائے تو سمجھ لیجئے کہ حکمران طبقہ انتہائی خوفزدہ ہے ۔ میری ناقص رائے میں تحریک انصاف کو 5 اگست کے دن سیاسی احتجاج کا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ 5 اگست کو یوم استحصال کشمیر منایا جاتا ہے ۔ اگر تحریک انصاف نے غلط کیا تو کیا الیکشن کمیشن نے 5 اگست کو عمر ایوب خان ، شبلی فراز اور کئی دیگر ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیکر کوئی اچھا کام کیا ؟ ایسا لگتا ہے کہ سب کے سب انتقام میں اندھے ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کی جمہوریت کو آئین وقانون کی بے بسی کی داستان بنا دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف والوں کا دعویٰ ہے کہ جو ظلم آج ہو رہا ہے یہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا ۔ جب اُن کو بتایا جائے کہ بھائی یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے تو وہ مانتے ہی نہیں ۔ چلیں جو کچھ میں نے کتابوں میں پڑھا اسے چھوڑ دیں۔ لیاقت علی خان نے پروڈا اور جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے ذریعہ جن سياسی مخالفین کو سزائیں دلوائیں اور نا اہل قرار دلوایا اُن کا ذکر نہیں کرتے ۔ جن سیاستدانوں کی گرفتاریوں اور نا اہلیوں کو میں نے بطور صحافی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اُن کا ذکر تو کرنے دیجئے ۔ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں ؟ صدر مملکت آصف زرداری مجموعی طور پر 13 سال سے زیادہ عرصہ جیلوں میں گزار چکے ہیں ۔ آخری مرتبہ انہیں 2020 ء میں عمران خان کے دور میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ اُسوقت کے ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو ایک دفعہ زرداری صاحب نے کہا تھا کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ، ایسا نہ ہو کہ تمہیں سزا ملے اور تمہاری معافی کیلئے فائل میرے پاس آجائے ۔ فیض حمید تو دس پندرہ سال تک آرمی چیف کے عہدے پر براجمان رہنے کا منصوبہ بنا چکے تھے لیکن انہیں اسوقت سمجھ نہ آئی ۔ شائد اب تھوڑی سی سمجھ آگئی ہو گی ۔ آج کے وزیر اعظم شہبا ز شریف کی آخری گرفتاری بھی 2020 ء میں لاہور ہائی کورٹ کے احاطے سے ہوئی۔ ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف ، احسن اقبال ، حنیف عباسی ، علیم خان ، خالد مقبول صدیقی اور مصطفیٰ کمال سمیت موجودہ کا بینہ کے کئی وزراء جیلوں میں وقت گزار چکے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپریل 1999 ء میں نواز شریف کے دور حکومت میں پانچ سال قید اور نااہلی کی سزا سنائی گئی۔ کچھ سال بعد اسی نواز شریف کو 2018 ء میں سات سال قید اور نااہلی کی سزا سنائی گئی ۔ نواز شریف اور شہباز شریف جب بھی گرفتار ہوئے تو انکی رہائی کیلئے کوئی احتجاجی تحریک کامیاب نہ ہوئی ۔ آج عمران خان گرفتار ہیں ۔ انکی رہائی کیلئے ابھی تک کوئی احتجاجی تحریک کامیاب نہیں ہوئی ۔ ان سب کی گرفتاریوں ، نااہلیوں اور کٹے پھٹے اقتدار کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ یہ صاحبان جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف سے زیادہ پاور فل نہیں تھے ۔ ڈکٹیٹروں کا انجام برا ہوا۔انہوں نے بھی جیسا کیا ویسا بھرا ۔ افسوس کسی نے بھی اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔یہ سب ایک شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں،عمران خان وزیر اعظم تھے تو اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر آصف زرداری اور شہباز شریف کو دھمکیاں دیتے تھے ۔ آج شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو عمران خان سے جیل میں ملاقات مشکل کر دی گئی ہے۔ بہرحال صرف پچھلے تیس سال کی تاریخ کا یہ سبق ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ جیسا کرو کے ویسا بھرو گے ۔
