یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن موجود ہی نہیں ہے اس ضمن میں بلوچستان سرفہرست ہے۔وہاں کا دستور ہے کہ ایک کل جماعتی حکومت تشکیل دی جاتی ہے تمام ایم پی اے صاحبان کو فنڈز مساوات کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سب شیروشکر ہو جاتے ہیں۔اصولاً تو جے یو آئی کو وہاں پر اپوزیشن کا کردارادا کرنا چاہیے لیکن بوجوہ یا مجبوری کی وجہ سے وہ اپنا یہ رول ادا کرنے سے قاصر ہے موجودہ ڈیجیٹل ایج میں سیاسی جماعتیں عوام کو بے سود دھوکہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں جب تمام جماعتوں کو علم ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آئے ہیں بلکہ انہیں لایا گیا ہے تو نوکر کی تے نخرہ کی کے مصداق یہ حکومت کی مخالفت کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے۔معلوم نہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں جب مائنز اینڈ منرل بل منظور ہوا تھا تو اس وقت اپوزیشن کا کیا کردار تھا لیکن بل کی منظوری کے بعد یہ قصہ گھڑا گیا کہ ہمارے سامنے اور بل لایا گیا تھا اور منظوری کسی اور مسودے کی دی گئی۔یہ بہت ہی بوگس دلیل ہے بل کے پیش ہونے اور منظور ہونے تک اپوزیشن نے مکمل طورپر تعاون کیا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے اب وہ عدالت گئے ہیں۔تعاون کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے کہ جے یو آئی کے ایک رکن نے بجٹ منظور ہونے کے موقع پر وزیراعلیٰ کو ہار پہنا دیا۔ہار پہنانا تو اس کا حق تھا کیونکہ واشک کو جو زیادہ فنڈز دئیے گئے اس کو اظہار وجوہ کا نوٹس دینے سے پہلے جے یو آئی قیادت کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اپنے ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی وطیرہ ہے کہ ہر موقع پر تعاون کرتے ہیں لیکن بعد میں مکر کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی ڈکشنری میں لفظ سرنڈر نہیں ہے۔لگتا ہے کہ بلاول صاحب تاریخ سے نابلد ہیں یا ان کا مطالعہ وسیع نہیں ہے۔
ہاں ان کی یہ بات قابل غور ہے کہ ان کے نانا نے 1965ءکی جنگ کے موقع پر اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ ہم ہزار سال تک لڑیں گے اب زمانہ بدل گیا ہے کہ جنگوں کا فیصلہ بہت جلدی ہو جاتا ہے اس کے لئے ایک ہزار سال تک انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
بدقسمتی سے پاکستان کی جو بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان کا کسی بھی معاملہ کے بارے میں کوئی ہوم ورک نہیں ہے کسی جماعت کا کوئی پروگرام اور منشور نہیں ہے۔اپنے کردار عمل اور دوغلی مفافقانہ پالیسی کی وجہ سے اپنی وقعت اور عفت کھو بیٹھی ہیں۔ن لیگ ٹھیک جارہی ہے اس کا واحد مطمع نظر کرسی اور اقتدار ہے۔اسے 1990 اور1997ءمیں جھرلو انتخابات کے ذریعے کامیابی ملی تھی جنرل پرویز مشرف سے لڑائی کی وجہ سے شریف خاندان کو کچھ مشکلات اور کچھ صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن پھر یہ جماعت اپنے اصل مقام پر آ گئی۔اس کے خیال میں ووٹ کو عزت مل گئی ہے اور آئین کی بالادستی قائم ہو گئی ہے یہ جماعت شہبازشریف اور بی بی مریم کے ذریعے ایسے اقتدار کا مزہ لوٹ رہی ہے جو ان کا حق نہیں تھا۔
پیپلزپارٹی کا تو بہت برا حال ہے اس نے نہ بحیثیت جماعت اپنا کردار شاندار ماضی اور بے نظیر کی جدوجہد کو ترک کر دیا ہے یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ پارٹی حکومت کا اٹوٹ انگ ہے لیکن کابینہ میں شامل نہیں ہے۔مرکزی حکومت سے ہر مطالبہ منوا رہی ہے لیکن کسی کسی جگہ اپوزیشن کا رول بھی ادا کر رہی ہے۔سنا ہے کہ جلد یہ جماعت وفاقی کابینہ میں شامل ہو جائے گی۔سندھ میں اس جماعت کی حکومت کو17برس ہوگئے ہیں لیکن کراچی کے نواحی علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔کارکردگی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ بی بی شہید کے نام پر بوٹ بیسن میں جو پارک بنایا تھا وہ تباہ حالی کا منظر پیش کر رہا ہے۔اگرچہ بلاول ہاؤس کا اطراف صفائی ستھرائی کے حوالے سے متاثر کن منظر پیش نہیں کررہا ہے لیکن زرداری صاحب نے ایک مرصع اور مسجع بار کی یا شادی ہال کھول کر علاقہ کی رونق میں اضافہ کیا ہے۔17برسوں میں سندھ حکومت نے تھرکول کے سوا کوئی میگا پراجیکٹ نہیں دیا ہے۔تھر پروجیکٹ بھی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔آلودگی حد سے بڑھ گئی ہے اور لوگ بہت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ملک کی تیسری اہم پارلیمانی جماعت جے یو آئی ہے اس کی پالیسیوں کا پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہیں یہ ہر مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیتی ہے اور بعد میں تنقید شروع کر دیتی ہے۔اگرچہ جے یو آئی نہ ہوتی تو26 ویں ترمیم منظور نہ ہوتی ۔بجٹ کی منظوری سے لیکر ہر قانون سازی تک جے یو آئی نے حکومت کا ساتھ دیا ہے۔مجبوری یہ ہے کہ ہمارے عزیز بھائی غفورحیدری اس پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔برخوردار یونس عزیز زہری خضدار کے ایم پی اے ہیں برادر خورد حافظ خلیل احمد کا جے یو آئی میں اہم مقام ہے۔ایک اور برخوردار خالد ولید سیفی بھی جے یو آئی کے اہم رکن ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ مکران میں پارٹی کو فعال بنانے پر کب انہیں سینیٹ کی نشست مل جائے گی لیکن اس جماعت نے بوجوہ اپنا سابقہ بولڈ کردار ترک کر دیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ جنوبی اضلاع کے حالات ہیں کچھ عرصہ قبل عبدالخیل میں مولانا کے صاحبزادہ اسعد محمود پر حملہ کی کوشش کی گئی تھی اس لئے وزیراعظم نے مولانا کی رہائش گاہ پر ایف سی تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔غالبًا چک شہزاد میں واقع مولانا صاحب کا جو محل ہے اس کی سیکورٹی کا انتظام بھی حکومت کرے گی۔ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات ایسے ہیں کہ مولانا وہاں سے الیکشن نہ جیت سکے اور انہیں بلوچستان میں ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑا۔مولانا نے غزہ کی صورتحال پر کئی مارچ کئے لیکن جب ایران اسرائیل اور امریکہ کی جنگ چھڑ گئی تو مولانا نے امریکی سفارت خانہ کی ایک تقریب میں شرکت کی لگتا تھا کہ چیف گیسٹ مولانا صاحب ہیں۔کوئی شک نہیں کہ مولانا سیاست دانوں کی موجودہ لاٹ میں سب سے زیادہ جہاندیدہ اور زیرک رہنما ہیں لیکن مقتدرہ سے قربت کے باوجود انہیں کے پی کے سے دیس نکالا مل گیا۔اس کی کیا وجوہات ہیں یہ صرف مولانا ہی جانتے ہیں۔اب جبکہ مولانا درپردہ مقتدرہ سے بام شیروشکر ہیں اور ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ کے پی کے کی آئندہ حکومت انہی کی ہوگی اس کے اسباب بھی صرف مولانا صاحب ہی جانتے ہیں۔
ایک اور اہم جماعت ایم کیو ایم پاکستان ہے۔الطاف حسین کی ایم کیو ایم تو کب کی ختم ہوچکی موجودہ جماعت مقتدرہ کی امانت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے کراچی کی17نشستیں دی گئی ہیں جبکہ یہ اصل میں ایک بھی نہیں جیتی ہے۔تحریک انصاف لڑتے لڑتے بے حال ہوگئی ہے اور اس میں کوئی سکت نہیں رہی۔پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔بیشتر قیادت مقتدرہ کے آگے سرتسلیم خم کر چکی ہے سارے لیڈر عمران خان کو دھوکہ دے رہے ہیں۔پاکستان کی پارلیمانی جماعتوں کا جو حال ہے کل کلاں ضرورت پڑنے پر یہ اسمبلی سے اپنے خاتمہ اور صدارتی نظام کے حق میں قرارداد منظور کرواسکتے ہیں ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ویسے بھی ریاستی تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔مضبوط قیادت اور مضبوط مرکز کے لئے صدارتی نظام ضروری ہے۔حالانکہ ایوب خان صدارتی نظام میں 1965ءکی جنگ ہار گئے تھے ضیاءالحق صاحب صدر تھے تو سیاچن ہارگئے اور پرویزمشرف دبنگ آرمی چیف تھے تو کارگل ہارگئے۔کوئی بھی نظام کسی چیز کی کامیابی یا ناکامی کی ضمانت نہیں ہے۔ہائبرڈ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی قابل ستائش نہیں ہے یہ ”شاہ دولے کے چوہے “ پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا۔
