20

عمران خان کے ’کٹا بچاؤ‘ خوابوں کے منصوبے کا دلچسپ معاملہ

غریب دوست اور زرعی شعبے میں انقلابی اقدام قرار دیے جانے والے ’کٹا بچاؤ‘ (بھینس کے بچھڑوں کو بچانے) کا منصوبہ ایک ایسی پالیسی بن چکا ہے جو عملدرآمد کے معاملے میں سرکاری کمزوری کی وجہ سے ناکام ہوئی۔

لائیو اسٹاک ڈیولپمنٹ کا یہ فلیگ شپ منصوبہ پنجاب میں 2019ء سے 2023ء کے دوران شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد بھینس کے بچھڑوں کو بچا کر اور انہیں فربہ کر کے گوشت کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا۔

لیکن اب یہ پروجیکٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی چشم کشا رپورٹ کے بعد تنقید کی زد میں آ چکا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ پنجاب کی جانب سے اس پروجیکٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے آڈٹ کیا گیا تو اس میں نظام کی خامیوں، مالی بے ضابطگیوں اور انتظامی کمزوریوں کا انکشاف ہوا۔

یہ وہ مسائل تھی جن کی وجہ سے پروجیکٹ کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے۔ 2015ء میں ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر شروع ہونے والے اس منصوبے کو 2019 میں مکمل توسیع دی گئی۔ اس منصوبے کا مقصد نوجوان بچھڑوں کو بچانا، انہیں متوازن خوراک فراہم کرنا اور آخرکار گوشت کی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنا تھا۔

ابتدائی وعدوں اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بھرپور پروموشن کے باوجود، آڈٹ رپورٹ کے مطابق منصوبہ اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

آڈٹ میں لاہور، اوکاڑہ، ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے 5؍ اضلاع کو شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں آپریشنل اور مالی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے جن میں: مستفید ہونے والے افراد کی ناقص فہرست، اضلاع میں بچھڑوں کی رجسٹریشن کا غیر متوازن ہدف؛ نااہل افراد کو فائدہ پہنچانا شامل ہیں۔

اس صورتحال کے نتیجے میں پروگرام کی شفافیت متاثر ہوئی؛ بچھڑوں کی عمر سے متعلق بے ضابطگی بھی سامنے آئی ہے۔ جن میں: کچھ بچھڑے کم یا زیادہ عمر کے ہونے کے باوجود رجسٹر ہوئے؛ کئی کیسز میں ایک ہی ٹیگ یا ٹیٹو نمبر کو متعدد جانوروں پر استعمال کیا گیا، جو لاپرواہی یا ممکنہ فراڈ کی نشاندہی کرتا ہے؛ ویکسین اور مانیٹرنگ کا عمل ناکام ہوا، کئی بچھڑوں کو ویکسین نہیں دی گئی، اور کوئی مربوط نگرانی کا نظام موجود نہیں تھا۔

اسی طرح ایس او پیز پر عملدرآمد نہ ہوا، اور اہم ریکارڈ درست طور پر محفوظ نہیں کیا گیا۔ منصوبے کی مالی لاگت کا تخمینہ بھی غلط تھا۔ پی سی ون میں بچھڑوں کی خریداری کی لاگت کم بتائی گئی، جس سے فیڈ لاٹ فیٹننگ کا جزو آغاز سے ہی مالی طور پر غیر موزوں ہوگیا۔

مالی بے ضابطگیوں میں 67؍ کروڑ 70؍ لاکھ روپے اوپن چیکس کے ذریعے جاری کیے گئے، جو ایک پرانا اور غیر شفاف طریقہ ہے، جبکہ 2؍ کروڑ 70؍ لاکھ روپے منصوبے کے اکاؤنٹس میں غیر تقسیم شدہ رہے۔ مزید 34؍ لاکھ روپے کی ادویات غیر منظم انداز سے استعمال کی گئیں، اور 76؍ ہزار 440؍ روپے کی زائد المیعاد یا غیر معیاری ادویات تبدیل نہیں کی گئیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے جس رقم کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی کم فراہم کی گئی؛ یعنی تقریباً 2؍ کروڑ 20؍ لاکھ روپے کم۔ مارکیٹ روابط کا فقدان بھی نظر آیا۔ بار بار دعووں کے باوجود، بچھڑا پالنے والوں اور گوشت کے پروسیسرز کے درمیان کوئی مربوط رابطہ قائم نہ ہو سکا، جس سے کسان مارکیٹ تک رسائی سے محروم رہے۔

چونکہ لائیو اسٹاک پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 14؍ فیصد سے زائد حصہ بناتا ہے، لہٰذا اس منصوبے کی ناکامی کے اثرات وسیع ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بنیادی طور پر ناقص رجسٹریشن اور نظامی کمزوریوں کی وجہ سے گوشت کی پیداوار بڑھانے کا مرکزی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔

اے جی پی نے آئندہ منصوبوں کیلئے جامع اصلاحات کی سفارش کی ہے، جن میں مستفید ہونے والے افراد کا ڈیجیٹل طریقے اختیار کرتے ہوئے شفاف انداز سے انتخاب، بہتر منصوبہ بندی اور بجٹنگ، سخت نگرانی، اور کسانوں کیلئے براہ راست مارکیٹ رسائی شامل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں